اخترِ صبØ+

گزشتی تیز گام اے اختر صبØ+

مگر از خواب ما بیزار رفتی

من از نا آگہی گم کردہ راہم

تو بیدار آمدی، بیدار رفتی

اے صبØ+ Ú©Û’ ستارے! تو آسمان پر نمودار تو ہوا، لیکن بہت تیزی Ú©Û’ ساتھ گزر گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ تو ہمیں کوئی پیغام دینے آیا تھا، لیکن جب تو Ù†Û’ دیکھا کہ ہم لوگ بیدار ہونے Ú©Û’ وقت بھی غفلت اور مدہوشی Ú©ÛŒ نیند سو رہے ہیں تو ہماری غفلت پر تو ہم سے ناراض ہوگیا اور ٹھہر کر ہمارے بیدار ہونے کا انتظار کرنے Ú©ÛŒ بجائے نہایت تیزی Ú©Û’ ساتھ ہماری دنیا سے چلا گیا۔

اے صبØ+ Ú©Û’ ستارے! تیری ناراضی اور برہمی بالکل بجا ہے۔ ہم اپنی غفلت Ú©ÛŒ وجہ سے اپنی راہ Ú¯Ù… کر بیٹھے۔ ہم سوتے رہے اور اس طرØ+ اپنی زندگی کا مقصد Ø+اصل نہ کر سکے۔ قدرت Ù†Û’ ہمارے لیے جو منزل مقرر کر رکھی تھی، ہم اپنی غفلت Ú©Û’ باعث اس تک نہیں پہنچ سکے۔ اس طرØ+ ناکامی Ùˆ نامرادی ہمارا مقدر بن گئی، مگر تُو Ú†ÙˆÚº کہ بیدار تھا، اس لیے کامیاب Ùˆ کامران رہا۔ تو ایک Ù„Ø+ظے Ú©Û’ لیے بھی غفلت کا شکار نہیں ہوا… تو بیدار آیا، بیدار رہا اور بیدار ہی گیا۔
علّامہ اقبالؒؒؒ Ù†Û’ اس رباعی میں صبØ+ Ú©Û’ ستارے سے خطاب کرتے ہوئے ہمیں اس Ø+قیقت Ú©ÛŒ طرف متوجہ کیا ہے کہ اس دنیا میں کامیابی Ùˆ کامرانی ان ہی کا مقدر بنتی ہے جو قوانینِ فطرت Ú©ÛŒ پابندی کرتے ہوئے اپنا فرضِ منصبی ادا کرتے ہیں۔ ستارے فطرت Ú©Û’ قوانین Ú©ÛŒ پابندی کرتے ہوئے کمال دیانت داری اور انتہائی باقاعدگی Ùˆ مستعدی Ú©Û’ ساتھ اپنا فرضِ منصبی انجام دیتے ہیں، لیکن انسان فطرت Ú©Û’ قوانین Ú©Ùˆ پسِ پشت ڈالے ہوئے ہے۔ وہ ان قوانین سے آگاہی بھی Ø+اصل نہیں کرتا اور اس طرØ+ اپنی راہ Ú¯Ù… کردیتا ہے۔ وہ غفلت Ú©ÛŒ نیند سوتا رہتا ہے، اس لیے اس Ú©ÛŒ زندگی Ú©ÛŒ منزل کھوئی ہوجاتی ہے۔ ستارے ہشیار Ùˆ بیدار رہتے ہیں، اس لیے اپنی منزل Ú©Ùˆ پالیتے ہیں۔

Ø+رکت اور بیداری کا یہی پیغام علّامہ اقبالؒؒؒ Ù†Û’ بانگِ درا میں اپنی نظم ’’چاند اور تارے‘‘ میں بھی دیا ہے، جس میں چاند ستاروں سے کہتا ہے کہ اس جہان Ú©ÛŒ زندگی Ø+رکت پر موقوف ہے اور Ø+رکت یہاں کا پرانا دستور ہے۔ یہاں تلاش ہر Ø´Û’ Ú©Ùˆ ہر وقت Ø+رکت میں رکھتی ہے۔ اس راستے میں ٹھہرنا بالکل بے جا ہے، کیوں کہ ٹھہرنے میں موت چُھپی ہوئی ہے، یعنی جو ٹھہرا، ختم ہوگیا۔ چلنے والے آگے Ù†Ú©Ù„ جاتے ہیں اور خود ذرا بھی ٹھہرے، وہ دوسروں Ú©Û’ قدموں تلے آکر روندے اور Ú©Ú†Ù„Û’ جاتے ہیں۔ اس چلنے کا آغاز عشق سے ہوتا ہے اور اس Ú©ÛŒ آخری منزل Ø+سن Ú©Û’ سوا Ú©Ú†Ú¾ نہیں۔